کسی کے نام پہ ننھے دیے جلاتے ہوئے
خدا کو بھول گئے نیکیاں کماتے ہوئے
وگرنہ بات ہماری سمجھ سے باہر تھی
یہ عشق ہو گیا بس روٹھتے مناتے ہوئے
ہماری واپسی آساں نہیں یقیں مانو
یہاں تک آئے ہیں ہم کشتیاں جلاتے ہوئے
انہیں عزیز ہے جینا جو جی رہے ہیں یہاں
مذاق بن کے خود اپنا مذاق اڑاتے ہوئے
بھڑاس دل کی نکالی گئی کچھ ایسے بھی
دعائیں مانگی گئیں چیختے چلاتے ہوئے
میں گھر گیا ہوں یہاں پر بہت سے اپنوں میں
ترے لیے سبھی کچھ داؤ پر لگاتے ہوئے

غزل
کسی کے نام پہ ننھے دیے جلاتے ہوئے
ازلان شاہ