EN हिंदी
بے یقینی کا تعلق بھی یقیں سے نکلا | شیح شیری
be-yaqini ka talluq bhi yaqin se nikla

غزل

بے یقینی کا تعلق بھی یقیں سے نکلا

ازلان شاہ

;

بے یقینی کا تعلق بھی یقیں سے نکلا
میرا رشتہ وہی آخر کو زمیں سے نکلا

مجھ کو پہچان تو اے وقت میں وہ ہوں جو فقط
ایک غلطی کے لئے عرش بریں سے نکلا

ایک مرے آنکھ جھپکنے کی ذرا دیر تھی بس
وہ قریب آتا ہوا دور کہیں سے نکلا

ایڑیاں مار کے زخمی بھی ہوئے لوگ مگر
کوئی چشمہ نہیں زرخیز زمیں سے نکلا