بے یقینی کا تعلق بھی یقیں سے نکلا
میرا رشتہ وہی آخر کو زمیں سے نکلا
مجھ کو پہچان تو اے وقت میں وہ ہوں جو فقط
ایک غلطی کے لئے عرش بریں سے نکلا
ایک مرے آنکھ جھپکنے کی ذرا دیر تھی بس
وہ قریب آتا ہوا دور کہیں سے نکلا
ایڑیاں مار کے زخمی بھی ہوئے لوگ مگر
کوئی چشمہ نہیں زرخیز زمیں سے نکلا
غزل
بے یقینی کا تعلق بھی یقیں سے نکلا
ازلان شاہ