دوسرا رخ نہیں جس کا اسی تصویر کا ہے
مسئلہ بھولے ہوئے خواب کی تعبیر کا ہے
چند قدموں سے زیادہ نہیں چلنے پاتے
جس کو دیکھو وہی قیدی کسی زنجیر کا ہے
جو بھی کرنا ہے فقط دل کی تسلی کے لئے
وقت تحریر کا ہے اور نہ تدبیر کا ہے
تم محبت کا اسے نام بھی دے لو لیکن
یہ تو قصہ کسی ہاری ہوئی تقدیر کا ہے
یہ جو چلنے نہیں پاتے تری جانب دراصل
جلدی جلدی میں کہیں ڈر ہمیں تاخیر کا ہے
بالکل ایسے مجھے حاصل ہے حمایت سب کی
ہر کوئی جیسے طرف دار یہاں ہیر کا ہے

غزل
دوسرا رخ نہیں جس کا اسی تصویر کا ہے
ازلان شاہ