اب تو مجھ کو بھی نہیں ملتی مری کوئی خبر
کتنا گمنام ہوا ہوں میں نمایاں ہو کر
اظہرنقوی
عجب حیرت ہے اکثر دیکھتا ہے میرے چہرے کو
یہ کس نا آشنا کا آئنے میں عکس رہتا ہے
اظہرنقوی
عجب نہیں کہ بچھڑنے کا فیصلہ کر لے
اگر یہ دل ہے تو نادان ہو بھی سکتا ہے
اظہرنقوی
دل کچھ دیر مچلتا ہے پھر یادوں میں یوں کھو جاتا ہے
جیسے کوئی ضدی بچہ روتے روتے سو جاتا ہے
اظہرنقوی
دکھ سفر کا ہے کہ اپنوں سے بچھڑ جانے کا غم
کیا سبب ہے وقت رخصت ہم سفر خاموش ہیں
اظہرنقوی
ایک ہنگامہ سا یادوں کا ہے دل میں اظہرؔ
کتنا آباد ہوا شہر یہ ویراں ہو کر
اظہرنقوی
ایک اک سانس میں صدیوں کا سفر کاٹتے ہیں
خوف کے شہر میں رہتے ہیں سو ڈر کاٹتے ہیں
اظہرنقوی
اک میں کہ ایک غم کا تقاضا نہ کر سکا
اک وہ کہ اس نے مانگ لئے اپنے خواب تک
اظہرنقوی
جمی ہے گرد آنکھوں میں کئی گمنام برسوں کی
مرے اندر نہ جانے کون بوڑھا شخص رہتا ہے
اظہرنقوی