EN हिंदी
گرداب ریگ جان سے موج سراب تک | شیح شیری
girdab-e-reg-e-jaan se mauj-e-sarab tak

غزل

گرداب ریگ جان سے موج سراب تک

اظہرنقوی

;

گرداب ریگ جان سے موج سراب تک
زندہ ہے تو لہو میں بس اک اضطراب تک

اک میں کہ ایک غم کا تقاضا نہ کر سکا
اک وہ کہ اس نے مانگ لئے اپنے خواب تک

تو لفظ لفظ لذت ہجراں میں ہے ابھی
ہم آ گئے ہیں ہجرت غم کے نصاب تک

جو زیر‌ موج آب رواں ہے خروج آب
آ جائے ایک روز اگر سطح آب تک

ملتا کہیں سواد ورود و شہود میں
ہوتا مری حدود کا کوئی حساب تک

تیرا ہی رقص سلسلہ عکس خواب ہے
اس اشک نیم شب سے شب ماہتاب تک

آثار عہد غم ہیں تہہ ریگ جاں کہ تو
پہنچا نہیں ابھی دل خانہ خراب تک