گرداب ریگ جان سے موج سراب تک
زندہ ہے تو لہو میں بس اک اضطراب تک
اک میں کہ ایک غم کا تقاضا نہ کر سکا
اک وہ کہ اس نے مانگ لئے اپنے خواب تک
تو لفظ لفظ لذت ہجراں میں ہے ابھی
ہم آ گئے ہیں ہجرت غم کے نصاب تک
جو زیر موج آب رواں ہے خروج آب
آ جائے ایک روز اگر سطح آب تک
ملتا کہیں سواد ورود و شہود میں
ہوتا مری حدود کا کوئی حساب تک
تیرا ہی رقص سلسلہ عکس خواب ہے
اس اشک نیم شب سے شب ماہتاب تک
آثار عہد غم ہیں تہہ ریگ جاں کہ تو
پہنچا نہیں ابھی دل خانہ خراب تک
غزل
گرداب ریگ جان سے موج سراب تک
اظہرنقوی