EN हिंदी
رہ گیا دیدۂ پر آب کا ساماں ہو کر | شیح شیری
rah gaya dida-e-pur-ab ka saman ho kar

غزل

رہ گیا دیدۂ پر آب کا ساماں ہو کر

اظہرنقوی

;

رہ گیا دیدۂ پر آب کا ساماں ہو کر
وہ جو رہتا تھا مرے ساتھ مری جاں ہو کر

جانے کس شوخ کے آنچل نے شرارت کی ہے
چاند پھرتا ہے ستاروں میں پریشاں ہو کر

آتے جاتے ہوئے دستک کا تکلف کیسا
اپنے گھر میں بھی کوئی آتا ہے مہماں ہو کر

اب تو مجھ کو بھی نہیں ملتی مری کوئی خبر
کتنا گمنام ہوا ہوں میں نمایاں ہو کر

وہ مرے صحن میں اترے ہیں اجالے کہیے
شام تکتی ہے در و بام کو حیراں ہو کر

میں نے اس شخص سے سیکھا ہے تکلم کا ہنر
وہ جو محفل میں بھی رہتا تھا گریزاں ہو کر

اجڑی اجڑی سی ہوا خاک بہ سر آتی ہے
شام اتری ہے کہیں شام غریباں ہو کر

ایک ہنگامہ سا یادوں کا ہے دل میں اظہرؔ
کتنا آباد ہوا شہر یہ ویراں ہو کر