نہیں ہے پر کوئی امکان ہو بھی سکتا ہے
وہ ایک شب مرا مہمان ہو بھی سکتا ہے
عجب نہیں کہ بچھڑنے کا فیصلہ کر لے
اگر یہ دل ہے تو نادان ہو بھی سکتا ہے
محبتوں میں تو سود و زیاں کو مت سوچو
محبتوں میں تو نقصان ہو بھی سکتا ہے
بہت گراں ہے جدائی مگر جو ہونا ہو
تو پھر یہ فیصلہ آسان ہو بھی سکتا ہے
بس اس خبر سے کہ یہ شہر ہے ہجوم سا کچھ
بس اک خبر سے یہ ویران ہو بھی سکتا ہے
غزل
نہیں ہے پر کوئی امکان ہو بھی سکتا ہے
اظہرنقوی