ایک اک سانس میں صدیوں کا سفر کاٹتے ہیں
خوف کے شہر میں رہتے ہیں سو ڈر کاٹتے ہیں
پہلے بھر لیتے ہیں کچھ رنگ تمہارے اس میں
اور پھر ہم اسی تصویر کا سر کاٹتے ہیں
خواب مٹھی میں لیے پھرتے ہیں صحرا صحرا
ہم وہی لوگ ہیں جو دھوپ کے پر کاٹتے ہیں
سونپ کر اس کو ترے درد کے سارے موسم
پھر اسی لمحے کو ہم زندگی بھر کاٹتے ہیں
تو نہیں ہے تو ترے شہر کی تصویر میں ہم
سارے ویرانے بنا دیتے ہیں گھر کاٹتے ہیں
اس کی یادوں کے پرندوں کو اڑا کر اظہرؔ
دل سے اب درد کا اک ایک شجر کاٹتے ہیں
غزل
ایک اک سانس میں صدیوں کا سفر کاٹتے ہیں
اظہرنقوی