اتر کر پانیوں میں چاند محو رقص رہتا ہے
مری آنکھوں میں کچھ اس طور کوئی شخص رہتا ہے
عجب حیرت ہے اکثر دیکھتا ہے میرے چہرے کو
یہ کس نا آشنا کا آئنے میں عکس رہتا ہے
مری بستی کا کوئی گھر بھی گھر جیسا نہیں لگتا
کہیں تعمیر بام و در میں کوئی نقص رہتا ہے
جمی ہے گرد آنکھوں میں کئی گمنام برسوں کی
مرے اندر نہ جانے کون بوڑھا شخص رہتا ہے
چلو باد صبا کو جنگلوں سے ڈھونڈ کر لائیں
فصیل شہر میں اظہرؔ بلا کا حبس رہتا ہے
غزل
اتر کر پانیوں میں چاند محو رقص رہتا ہے
اظہرنقوی