دل کچھ دیر مچلتا ہے پھر یادوں میں یوں کھو جاتا ہے
جیسے کوئی ضدی بچہ روتے روتے سو جاتا ہے
سرد ہوا یا ٹوٹا تاؤ پوری رات ادھورا چاند
میرے آنگن کی مٹی کو جانے کون بھگو جاتا ہے
اک اک کر کے دھوپ کے سارے سرخ پرندے مر جاتے ہیں
ریت کے زرد سمندر پر جب سورج پاؤں دھو جاتا ہے
تجھ سے بچھڑ کر رات کا اک اک لمحہ صدیوں میں کٹتا ہے
دن کے ہوتے ہوتے اب تو ایک زمانہ ہو جاتا ہے
رات گئے تنہائی مجھ سے اکثر پوچھنے آ جاتی ہے
چپ کی اس بستی کو شور و غل میں کون ڈبو جاتا ہے
غزل
دل کچھ دیر مچلتا ہے پھر یادوں میں یوں کھو جاتا ہے
اظہرنقوی