بنانا پڑتا ہے اپنے بدن کو چھت اپنی
اور اپنے سائے کو دیوار کرنا پڑتا ہے
اطہر ناسک
کتنے معنی رکھتا ہے ذرا غور تو کر
کوزہ گر کے ہاتھ میں ہونا مٹی کا
اطہر ناسک
میں پوچھ لیتا ہوں یاروں سے رت جگوں کا سبب
مگر وہ مجھ سے مرے خواب پوچھ لیتے ہیں
اطہر ناسک
میں اسے صبح نہ جانوں جو ترے سنگ نہیں
میں اسے شام نہ مانوں کہ جو تیرے بن ہے
اطہر ناسک
نجانے کون سی مجبوریاں ہیں جن کے لیے
خود اپنی ذات سے انکار کرنا پڑتا ہے
اطہر ناسک
سورج لحاف اوڑھ کے سویا تمام رات
سردی سے اک پرندہ دریچے میں مر گیا
اطہر ناسک
یہیں کہیں پہ عدو نے پڑاؤ ڈالا تھا
یہیں کہیں پہ محبت نے ہار مانی تھی
اطہر ناسک
یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں
اطہر ناسک