EN हिंदी
میں تجھے بھولنا چاہوں بھی تو نا ممکن ہے | شیح شیری
main tujhe bhulna chahun bhi to na-mumkin hai

غزل

میں تجھے بھولنا چاہوں بھی تو نا ممکن ہے

اطہر ناسک

;

میں تجھے بھولنا چاہوں بھی تو نا ممکن ہے
تو مری پہلی محبت ہے مرا محسن ہے

میں اسے صبح نہ جانوں جو ترے سنگ نہیں
میں اسے شام نہ مانوں کہ جو تیرے بن ہے

کیسا منظر ہے ترے ہجر کے پس منظر کا
ریگ صحرا ہے رواں اور ہوا ساکن ہے

تیری آنکھوں سے ترے ہاتھوں سے لگتا تو نہیں
میرے احباب یہ کہتے ہیں کہ تو کمسن ہے

ابھی کچھ دیر میں ہو جائے گا آنگن جل تھل
ابھی آغاز ہے بارش کا ابھی کن من ہے

عین ممکن ہے کہ کل وقت فقط میرا ہو
آج مٹھی میں یہ آیا ہوا پہلا دن ہے

آج کا دن تو بہت خیر سے گزرا ناسکؔ
کل کی کیوں فکر کروں کل کا خدا ضامن ہے