آنسو تمہاری آنکھ میں آئے تو اٹھ گئے
ہم جب کرم کی تاب نہ لائے تو اٹھ گئے
عطا الرحمن جمیل
آنے والی آ نہیں چکتی جانے والی جا بھی چکی
ویسے تو ہر جانے والی رات تھی آنے والی رات
عطا الرحمن جمیل
دل پر برف کی سل رکھ دینا ناگن بن کر ڈس لینا
اپنے لیے دونوں ہی برابر کالی ہو کہ اجالی رات
عطا الرحمن جمیل
کچھ خواب کچھ خیال میں مستور ہو گئے
تم کیا قریب نکلے کہ سب دور ہو گئے
عطا الرحمن جمیل
تمہاری بزم سے جب بھی اٹھے تو حال زدہ
کبھی جواب کے مارے کبھی سوال زدہ
عطا الرحمن جمیل
ان کو بھی جمیلؔ اپنے مقدر سے گلہ ہے
وہ لوگ جو سنتے تھے کہ چالاک بہت ہیں
عطا الرحمن جمیل
یہ دنیا ہے یہاں ہر آبگینہ ٹوٹ جاتا ہے
کہیں چھپتے پھرو آخر زمانہ ڈھونڈھ ہی لے گا
عطا الرحمن جمیل