EN हिंदी
آنسو تمہاری آنکھ میں آئے تو اٹھ گئے | شیح شیری
aansu tumhaari aankh mein aae to uTh gae

غزل

آنسو تمہاری آنکھ میں آئے تو اٹھ گئے

عطا الرحمن جمیل

;

آنسو تمہاری آنکھ میں آئے تو اٹھ گئے
ہم جب کرم کی تاب نہ لائے تو اٹھ گئے

بیٹھے تھے آ کے پاس کہ اپنوں میں تھا شمار
دیکھا کہ ہم ہی نکلے پرائے تو اٹھ گئے

ہم حرف زیر لب تھے ہمیں کون روکتا
لفظوں کے تم نے جال بچھائے تو اٹھ گئے

بیٹھے چھپا چھپا کے جو دامن میں آفتاب
ہم نے بھی کچھ چراغ جلائے تو اٹھ گئے

کیا تھا ہمارے پاس بجز اک سکوت غم
چرکے بہت جو تم نے لگائے تو اٹھ گئے