کچھ خواب کچھ خیال میں مستور ہو گئے
تم کیا قریب نکلے کہ سب دور ہو گئے
آنکھوں کے در تھے بند تو جینا محال تھا
آنکھیں کھلیں تو اور بھی معذور ہو گئے
ایسے چھپے کہ سرمۂ چشم جہاں ہوئے
ایسے کھلے کہ برق سر طور ہو گئے
جادوگری کے راز سے نا آشنا نہ تھے
ہم تو ترے خیال سے مجبور ہو گئے
مٹی پہ آ گئی تھی ذرا دیر کو بہار
بس لوگ اتنی بات پہ مغرور ہو گئے
پتھر تو پوجے جاتے ہیں اس راہ میں جمیلؔ
تم تو ذرا سی ٹھیس لگی چور ہو گئے
غزل
کچھ خواب کچھ خیال میں مستور ہو گئے
عطا الرحمن جمیل