EN हिंदी
آصف ثاقب شیاری | شیح شیری

آصف ثاقب شیر

7 شیر

دل کی موجوں کی تڑپ میری صدا میں آئے
دائرے کرب کے پھیلے تو ہوا میں آئے

آصف ثاقب




کس درجہ منافق ہیں سب اہل ہوس ثاقبؔ
اندر سے تو پتھر ہیں اور لگتے ہیں پانی سے

آصف ثاقب




لکیر کھینچ کے مجھ پہ وہ پھر مجھے دیکھے
نگار و نقش میں چہرہ ہے ہو بہ ہو میرا

آصف ثاقب




قیدی رہا ہوئے تھے پہن کر نئے لباس
ہم تو قفس سے اوڑھ کے زنجیر چل پڑے

آصف ثاقب




رستے کی انجان خوشی ہے
منزل کا انجانا ڈر ہے

آصف ثاقب




سمیٹ لے گئے سب رحمتیں کہاں مہمان
مکان کاٹتا پھرتا ہے میزبانوں کو

آصف ثاقب




سینے کے بیچ ثاقبؔ ایسا ہے مرنا جینا
اک یاد جی اٹھی تھی اک یاد مر گئی ہے

آصف ثاقب