نمو کی خاک سے اٹھے گا پھر لہو میرا
عقب سے وار کرے چاہے جنگ جو میرا
لکیر کھینچ کے مجھ پہ وہ پھر مجھے دیکھے
نگار و نقش میں چہرہ ہے ہو بہ ہو میرا
رقیب تشنہ تو جی بھر کے خاک چاٹے گا
چٹخ کے ٹوٹ گیا ہاتھ میں سبو میرا
میں اپنی روح کی تاریکیوں میں جھانک چکا
نکل سکا نہ کمیں گاہ سے عدو میرا
یہ روپ اپنے مسیحا کا دیکھ کر ثاقبؔ
اٹک کے رہ ہی گیا سانس در گلو میرا
غزل
نمو کی خاک سے اٹھے گا پھر لہو میرا
آصف ثاقب