اوجھل ہوئی نظر سے بے بال و پر گئی ہے
لفظوں کی بیکرانی بستوں میں بھر گئی ہے
دیوار دل پہ اب تک ہم دیکھتے رہے ہیں
تصویر کس کی لٹکی کس کی اتر گئی ہے
اس کی گلی میں ہم پر پتھر برس پڑے تھے
جیسا گزر ہوا تھا ویسی گزر گئی ہے
جب ڈھونڈتے رہے تھے اتنی خبر نہیں تھی
ہم میں کدھر سے آئی دنیا کدھر گئی ہے
بھاگی تھی اک حسینہ باغوں کے شور و غل سے
اس کی بلا جوانی بچوں سے ڈر گئی ہے
ہے چل چلاؤ کیسا کیسا ہے آنا جانا
وہ شام جا چکی تھی اب وہ سحر گئی ہے
سینے کے بیچ ثاقبؔ ایسا ہے مرنا جینا
اک یاد جی اٹھی تھی اک یاد مر گئی ہے
غزل
اوجھل ہوئی نظر سے بے بال و پر گئی ہے
آصف ثاقب