کسے مجال جو ٹوکے مری اڑانوں کو
میں خاکسار سمجھتا ہوں آسمانوں کو
سند خلوص کی مانگے نہ مجھ سے مستقبل
میں ساتھ لے کے چلا ہوں گئے زمانوں کو
زمین بک گئی ساری عدو کے پاس مری
دعائیں دیتا ہوں میں آپ کے لگانوں کو
نظر کی حد میں سمٹ آئے اجنبی چہرے
تلاش کرنے جو نکلا میں مہربانوں کو
سمیٹ لے گئے سب رحمتیں کہاں مہمان
مکان کاٹتا پھرتا ہے میزبانوں کو
میں سنگ میل کے ریزے سنبھال لوں ثاقبؔ
سفر کی لاج سمجھتا ہوں ان نشانوں کو
غزل
کسے مجال جو ٹوکے مری اڑانوں کو
آصف ثاقب