بزم سخن کو آپ کی دلگیر چل پڑے
غالبؔ کئی چلے ہیں کئی میرؔ چل پڑے
جنت کی کیا بساط کہ وہ چل کے آئے گی
میری طرف تو وادئ کشمیر چل پڑے
حرکت میں آ گئے ہیں سبھی رنگ خال و خط
ان کی نظر کے سحر سے تصویر چل پڑے
دیکھا جو مجھ کو آپ کی پلکیں جھپک گئیں
اک جسم ناتواں پہ کئی تیر چل پڑے
قیدی رہا ہوئے تھے پہن کر نئے لباس
ہم تو قفس سے اوڑھ کے زنجیر چل پڑے
توڑا نہیں ہے شاخ سے خوش تھی بکاؤلی
ہم لے کے اس کے پھول کی تصویر چل پڑے
پوچھا کسی نے آپ کو جانا ہے کس طرف
ہم لوگ سوئے وادئ کشمیر چل پڑے
ثاقبؔ ہم اپنے گاؤں کی بربادیوں کے بعد
اس دل میں لے کے حسرت تعمیر چل پڑے
غزل
بزم سخن کو آپ کی دلگیر چل پڑے
آصف ثاقب