دل کی موجوں کی تڑپ میری صدا میں آئے
دائرے کرب کے پھیلے تو ہوا میں آئے
میرے ہاتھوں ہی نے آئینہ دکھایا تھا مجھے
کتنے مشکل تھے تقاضے جو دعا میں آئے
ہم غریبی میں بھی معیار سفر رکھتے ہیں
گرتے پڑتے ہی سہی اپنی انا میں آئے
ان سے ہم شعر کی تاثیر بڑھا لیتے ہیں
کیسے لہجے ترے آنچل کی ہوا میں آئے
وہ تو پہچان کی موہوم نظر رکھتا ہے
ہم یوں ہی سامنے زخموں کی قبا میں آئے
آخری شعر کی منزل بھی کڑی ہے ثاقبؔ
سوچ کے کتنے سفر ذہن رسا میں آئے
غزل
دل کی موجوں کی تڑپ میری صدا میں آئے
آصف ثاقب