جھنکار ہے موجوں کی بہتے ہوئے پانی سے
زنجیر مچل جائے قدموں کی روانی سے
اک موج صبا بھیجوں افکار کے زنداں کو
جو لفظ چھڑا لائے پر پیچ معانی سے
کتنی ہے پڑی مشکل دن پھرتے ہیں آخر میں
میں نے یہ سبق سیکھا بچوں کی کہانی سے
تفصیل سے لکھا تھا جب نامہ محبت کا
غالبؔ کو غرض کیا تھی پیغام زبانی سے
جی کرتا ہے مر جائیں اب لوٹ کے گھر جائیں
جنت کا خیال آئے گندم کی گرانی سے
خوشبو کو اڑانے میں یہ رات کی چوری کیوں
پوچھے تو کوئی جا کر اس رات کی رانی سے
کس درجہ منافق ہیں سب اہل ہوس ثاقبؔ
اندر سے تو پتھر ہیں اور لگتے ہیں پانی سے
غزل
جھنکار ہے موجوں کی بہتے ہوئے پانی سے
آصف ثاقب