EN हिंदी
انجم خیالی شیاری | شیح شیری

انجم خیالی شیر

15 شیر

اندھیری رات ہے سایہ تو ہو نہیں سکتا
یہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے

انجم خیالی




آنکھ جھپکیں تو اتنے عرصے میں
جانے کتنے برس گزر جائیں

انجم خیالی




اذاں پہ قید نہیں بندش نماز نہیں
ہمارے پاس تو ہجرت کا بھی جواز نہیں

انجم خیالی




بعض وعدے کیے نہیں جاتے
پھر بھی ان کو نبھایا جاتا ہے

انجم خیالی




اس نام کا کوئی بھی نہیں ہے
جس نام سے ہم پکارتے ہیں

انجم خیالی




جاں قرض ہے سو اتارتے ہیں
ہم عمر کہاں گزارتے ہیں

انجم خیالی




جب تک میں پہنچتا ہوں کڑی دھوپ میں چل کر
دیوار کا سایہ پس دیوار نہ ہو جائے

انجم خیالی




کہاں ملا میں تجھے یہ سوال بعد کا ہے
تو پہلے یاد تو کر کس جگہ گنوایا مجھے

انجم خیالی




کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے
جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے

انجم خیالی