آزار مرے دل کا دل آزار نہ ہو جائے
جو کرب نہاں ہے وہ نمودار نہ ہو جائے
آواز بھی دیتی ہے کہ اٹھ جاگ میرے لعل
ڈرتی بھی ہے بچہ کہیں بیدار نہ ہو جائے
جب تک میں پہنچتا ہوں کڑی دھوپ میں چل کر
دیوار کا سایہ پس دیوار نہ ہو جائے
پردہ نہ سرک جائے کہیں اے دل بے تاب
وہ پردہ نشیں اور پر اسرار نہ ہو جائے
بڑھتا چلا جاتا ہے زمانے سے تعلق
یہ سلسلہ زنجیر گراں بار نہ ہو جائے
آرام سے رہتا ہی نہیں بندۂ بے دام
جب تک کسی مشکل میں گرفتار نہ ہو جائے
غزل
آزار مرے دل کا دل آزار نہ ہو جائے
انجم خیالی