جاں قرض ہے سو اتارتے ہیں
ہم عمر کہاں گزارتے ہیں
شامیں ہیں وہی وہی ہیں صبحیں
گزرے ہوئے دن گزارتے ہیں
اس نام کا کوئی بھی نہیں ہے
جس نام سے ہم پکارتے ہیں
گنتے ہیں تمام رات تارے
ہم رات یوں ہی گزارتے ہیں
پچکے ہوئے گال زرد چہرے
جذبات بہت ابھارتے ہیں
غزل
جاں قرض ہے سو اتارتے ہیں
انجم خیالی