EN हिंदी
جاں قرض ہے سو اتارتے ہیں | شیح شیری
jaan qarz hai so utarte hain

غزل

جاں قرض ہے سو اتارتے ہیں

انجم خیالی

;

جاں قرض ہے سو اتارتے ہیں
ہم عمر کہاں گزارتے ہیں

شامیں ہیں وہی وہی ہیں صبحیں
گزرے ہوئے دن گزارتے ہیں

اس نام کا کوئی بھی نہیں ہے
جس نام سے ہم پکارتے ہیں

گنتے ہیں تمام رات تارے
ہم رات یوں ہی گزارتے ہیں

پچکے ہوئے گال زرد چہرے
جذبات بہت ابھارتے ہیں