آس کیا اب تو امید ناامیدی بھی نہیں
کون دے مجھ کو تسلی کون بہلائے مجھے
امیر اللہ تسلیم
عہد کے بعد لئے بوسے دہن کے اتنے
کہ لب زود پشیماں کو مکرنے نہ دیا
امیر اللہ تسلیم
بس کہ تھی رونے کی عادت وصل میں بھی یار سے
کہہ کے اپنا آپ حال آرزو رونے لگا
امیر اللہ تسلیم
داستان شوق دل ایسی نہیں تھی مختصر
جی لگا کر تم اگر سنتے میں کہتا اور بھی
امیر اللہ تسلیم
دل دھڑکتا ہے شب غم میں کہیں ایسا نہ ہو
مرگ بھی بن کر مزاج یار ترسائے مجھے
امیر اللہ تسلیم
دل لگی میں حسرت دل کچھ نکل جاتی تو ہے
بوسے لے لیتے ہیں ہم دو چار ہنستے بولتے
امیر اللہ تسلیم
دماغ دے جو خدا گلشن محبت میں
ہر ایک گل سے ترے پیرہن کی بو آئے
امیر اللہ تسلیم
فکر ہے شوق کمر عشق دہاں پیدا کروں
چاہتا ہوں ایک دل میں دو مکاں پیدا کروں
امیر اللہ تسلیم
گر یہی ہے پاس آداب سکوت
کس طرح فریاد لب تک آئے گی
امیر اللہ تسلیم