شمیم یار نہ جب تک چمن میں چھو آئے
نہ رنگ آئے کسی پھول میں نہ بو آئے
مزہ تو جب ہے شہادت کا میں ادھر سے بڑھوں
ادھر سے تیغ جفا کھنچ کے تا گلو آئے
دماغ دے جو خدا گلشن محبت میں
ہر ایک گل سے ترے پیرہن کی بو آئے
زباں دراز سناں زخم میں دریدہ دہن
کہیں نہ دونوں میں رنجش کی گفتگو آئے
دکھائیں حسن بیاں شاعری میں کیا تسلیمؔ
زبان آئے نہ انداز گفتگو آئے
غزل
شمیم یار نہ جب تک چمن میں چھو آئے
امیر اللہ تسلیم