بڑھ گئی مے پینے سے دل کی تمنا اور بھی
صدقہ اپنا ساقیا یک جام صہبا اور بھی
ایک تو میں آپ ناصح ہوں پریشاں خستہ جاں
دل دکھا دیتی ہے تیری پند بے جا اور بھی
داستان شوق دل ایسی نہیں تھی مختصر
جی لگا کر تم اگر سنتے میں کہتا اور بھی
کچھ تو پہلے سے دل بے تاب تھا وحشی مزاج
بے ترے دن رات گھبراتا ہے تنہا اور بھی
دیکھتے ہی دیکھتے تسلیمؔ وہ چھپنے لگے
بڑھ گیا بے پردگی میں مجھ سے پردہ اور بھی
غزل
بڑھ گئی مے پینے سے دل کی تمنا اور بھی
امیر اللہ تسلیم