آرزو ٹیس کرب تنہائی
خود میں کتنا سمٹ گیا ہوں میں
اکمل امام
اکملؔ آج کا انساں کتنا بے تحمل ہے
دل میں کچھ خلش ابھری اور داغ دی سازش
اکمل امام
اپنے احساس کی شدت کو بجھانے کے لئے
میں نئی طرز کے خوش فکر رسالے مانگوں
اکمل امام
فساد روکنے کم ظرف لوگ پہنچے ہیں
گھروں میں رہ گئے روشن ضمیر جتنے تھے
اکمل امام
ہر ایک حرف سے جینے کا فن نمایاں ہو
کچھ اس طرح کی عبارت نصاب میں لکھیے
اکمل امام
میرا سایہ بھی بڑھ گیا مجھ سے
اس سلیقہ سے گھٹ گیا ہوں میں
اکمل امام
نئی تحقیق نے قطروں سے نکالے دریا
ہم نے دیکھا ہے کہ ذروں سے زمانے نکلے
اکمل امام
انگلیوں کے ہنر سے اے اکملؔ
شکل پاتی ہے چاک پر مٹی
اکمل امام
ذہن میں اجنبی سمتوں کے ہیں پیکر لیکن
دل کے آئینے میں سب عکس پرانے نکلے
اکمل امام