دیکھو اس نے قدم قدم پر ساتھ دیا بیگانے کا
اخترؔ جس نے عہد کیا تھا تم سے ساتھ نبھانے کا
اختر لکھنوی
ہمیں خدا پہ بھروسہ ہے نا خدا پہ نہیں
خدا جو دیتا ہے وہ نا خدا نہیں دیتا
اختر لکھنوی
حسد کا رنگ پسندیدہ رنگ ہے سب کا
یہاں کسی کو کوئی اب دعا نہیں دیتا
اختر لکھنوی
اک تیرے ہی کوچے پر موقوف نہیں ہے کچھ
ہر گام ہیں تعزیریں ہم لوگ جہاں بھی ہیں
اختر لکھنوی
اسی حسرت میں کٹی راہ حیات
کوئی دو چار قدم ساتھ چلے
اختر لکھنوی
جذبے کی کڑی دھوپ ہو تو کیا نہیں ممکن
یہ کس نے کہا سنگ پگھلتا ہی نہیں ہے
اختر لکھنوی
خوابیدہ اپنے چاہنے والوں کو دیکھ کر
ممکن ہے لوٹ جائے سحر جاگتے رہو
اختر لکھنوی
کتنے محبوب گھروں سے گئے کس کو معلوم
واپس آئے ہیں جو اپنوں میں خبر کی صورت
اختر لکھنوی
مئے کہنہ نہ سہی خون تمنا ہی سہی
ایک پیمانہ مرے سامنے لایا تو گیا
اختر لکھنوی