EN हिंदी
رونق ہی نہیں اس کی ہم روح و رواں بھی ہیں | شیح شیری
raunaq hi nahin uski hum ruh-o-rawan bhi hain

غزل

رونق ہی نہیں اس کی ہم روح و رواں بھی ہیں

اختر لکھنوی

;

رونق ہی نہیں اس کی ہم روح و رواں بھی ہیں
لیکن ہمیں دنیا کی خاطر پہ گراں بھی ہیں

اک تیرے ہی کوچے پر موقوف نہیں ہے کچھ
ہر گام ہیں تعزیریں ہم لوگ جہاں بھی ہیں

گلچیں کو نہیں شاید اس راز سے آگاہی
شبنم میں نہائے گل شعلوں کی زباں بھی ہیں

کھاتے تھے قسم جن کے کردار و عمل کی ہم
شامل صف اعدا میں وہ ہم نفساں بھی ہیں

سچ کہتے ہو ہم ایسے ذروں کی حقیقت کیا
اب کون کہے تم سے ہم سنگ گراں بھی ہیں