ہشیار کر رہا ہے گجر جاگتے رہو
اے صاحبان فکر و نظر جاگتے رہو
دشت شب سیاہ میں سنتے ہیں شب پرست
روکیں گے کاروان سحر جاگتے رہو
ظلمت کہیں نہ کر دے اجالے کو داغدار
لے کر چراغ دیدۂ تر جاگتے رہو
سوئے نہیں کہ ڈوب گئی نبض کائنات
بوجھل ہو لاکھ آنکھ مگر جاگتے رہو
خوابیدہ اپنے چاہنے والوں کو دیکھ کر
ممکن ہے لوٹ جائے سحر جاگتے رہو
غزل
ہشیار کر رہا ہے گجر جاگتے رہو
اختر لکھنوی