دل کے ہر زخم کو پلکوں پہ سجایا تو گیا
آپ کے نام پہ اک جشن منایا تو گیا
مئے کہنہ نہ سہی خون تمنا ہی سہی
ایک پیمانہ مرے سامنے لایا تو گیا
خیر اپنا نہیں باغی ہی سمجھ کر ہم کو
تیری محفل میں کسی طور بلایا تو گیا
اب یہ بات اور کہ زنداں میں بھی زنجیریں ہیں
ہم کو گلشن کی بلاؤں سے بچایا تو گیا
دار پہ چڑھ کے بھی خوش ہیں کہ ہمیں اس دل میں
اس بہانے ہی سہی اپنا بنایا تو گیا
اب یہ قسمت ہی نہ جاگے تو کرے کیا کوئی
روز و شب اک نیا طوفان اٹھایا تو گیا
کیا ہے منزل سے اگر ہو گئے ہم دور اخترؔ
رہبروں کے ہمیں حلقے سے نکالا تو گیا
غزل
دل کے ہر زخم کو پلکوں پہ سجایا تو گیا
اختر لکھنوی