EN हिंदी
اکبر علی خان عرشی زادہ شیاری | شیح شیری

اکبر علی خان عرشی زادہ شیر

23 شیر

عجیب اس سے تعلق ہے کیا کہا جائے
کچھ ایسی صلح نہیں ہے کچھ ایسی جنگ نہیں

اکبر علی خان عرشی زادہ




دھنک کی طرح نکھرتا ہے شب کو خوابوں میں
وہی جو دن کو مری چشم تر میں رہتا ہے

اکبر علی خان عرشی زادہ




غم ایام پہ یوں خوش ہیں ترے دیوانے
غم ایام بھی اک تیری ادا ہو جیسے

اکبر علی خان عرشی زادہ




حرف دشنام سے یوں اس نے نوازا ہم کو
یہ ملامت ہی محبت کا صلہ ہو جیسے

اکبر علی خان عرشی زادہ




اسی تلاش میں پہونچا ہوں عشق تک تیرے
کہ اس حوالے سے پا جاؤں میں دوام اپنا

اکبر علی خان عرشی زادہ




جب آ رہی ہیں بہاریں لیے پیام جنوں
یہ پیرہن کو مرے حاجت رفو کیا تھی

اکبر علی خان عرشی زادہ




جو بار دوش رہا سر وہ کب تھا شوریدہ
بہا نہ جس سے لہو وہ رگ گلو کیا تھی

اکبر علی خان عرشی زادہ




کبھی خوشبو کبھی سایہ کبھی پیکر بن کر
سبھی ہجروں میں وصالوں میں مرے پاس رہو

اکبر علی خان عرشی زادہ




لاؤ اک لمحے کو اپنے آپ میں ڈوب کے دیکھ آؤں
خود مجھ میں ہی میرا خدا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

اکبر علی خان عرشی زادہ