یہ تن گھرا ہوا چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے
پر اپنا من کہ جو ہر دم سفر میں رہتا ہے
دھنک کی طرح نکھرتا ہے شب کو خوابوں میں
وہی جو دن کو مری چشم تر میں رہتا ہے
وصال اس کو لکھوں میں کہ ہجر کا آغاز
جو ایک لمحہ مسلسل نظر میں رہتا ہے
چلو وہ ہم نہیں کوئی تو ہے ضرور کہ جو
سکوں سے سایۂ دیوار و در میں رہتا ہے
ہے تنگ جس پہ بہت وسعت زبان و بیاں
وہ حرف اک نگہ مختصر میں رہتا ہے
غزل
یہ تن گھرا ہوا چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے
اکبر علی خان عرشی زادہ