EN हिंदी
یہ تن گھرا ہوا چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے | شیح شیری
ye tan ghira hua chhoTe se ghar mein rahta hai

غزل

یہ تن گھرا ہوا چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے

اکبر علی خان عرشی زادہ

;

یہ تن گھرا ہوا چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے
پر اپنا من کہ جو ہر دم سفر میں رہتا ہے

دھنک کی طرح نکھرتا ہے شب کو خوابوں میں
وہی جو دن کو مری چشم تر میں رہتا ہے

وصال اس کو لکھوں میں کہ ہجر کا آغاز
جو ایک لمحہ مسلسل نظر میں رہتا ہے

چلو وہ ہم نہیں کوئی تو ہے ضرور کہ جو
سکوں سے سایۂ دیوار و در میں رہتا ہے

ہے تنگ جس پہ بہت وسعت زبان و بیاں
وہ حرف اک نگہ مختصر میں رہتا ہے