تمہارے دل کی طرح یہ زمین تنگ نہیں
خدا کا شکر کہ پاؤں میں اپنے لنگ نہیں
عجیب اس سے تعلق ہے کیا کہا جائے
کچھ ایسی صلح نہیں ہے کچھ ایسی جنگ نہیں
کوئی بتاؤ کہ اس آئنہ کا مول ہے کیا
جس آئنہ پہ نشان غبار و زنگ نہیں
مرا جنون ہے کوتاہ یا یہ شہر تباہ
جو زخم سر کے لیے یاں تلاش سنگ نہیں
ہیں سارے قافلہ سالار سب ہیں راہنما
یہ کیا سفر ہے جو کوئی کسی کے سنگ نہیں
جو کچھ متاع ہنر ہو تو سامنے لاؤ
کہ یہ زمانۂ اظہار نسل و رنگ نہیں
غزل
تمہارے دل کی طرح یہ زمین تنگ نہیں
اکبر علی خان عرشی زادہ