ایسے سلگ اٹھا تری یادوں سے دل مرا
جیسے دھدھک اٹھیں کہیں جنگل چنار کے
اجے سحاب
چارہ گر سب کے پاس جاتا تھا
صرف بیمار تک نہیں پہنچا
اجے سحاب
ایک مدت سے دھدھکتا رہا میرا یہ ذہن
تب کہیں جا کے فروزاں ہوئے لفظوں کے چراغ
اجے سحاب
فن جو معیار تک نہیں پہنچا
اپنے شہکار تک نہیں پہنچا
اجے سحاب
حادثے جان تو لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے
حادثے ہی ہمیں جینا بھی سکھا دیتے ہیں
اجے سحاب
ہر آدمی کے قد سے اس کی قبا بڑی ہے
سورج پہن کے نکلے دھندلے چراغ یارو
اجے سحاب
ہر خدا جنتوں میں ہے محدود
کوئی سنسار تک نہیں پہنچا
اجے سحاب
اک بند ہو گیا ہے تو کھولیں گے باب اور
ابھریں گے اپنی رات سے سو آفتاب اور
اجے سحاب
جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں
جانے کس بات کی وہ ہم کو سزا دیتے ہیں
اجے سحاب