اشکوں سے کب مٹے ہیں دامن کے داغ یارو
ایسے نہیں بجھیں گے غم کے چراغ یارو
ہر آدمی کے قد سے اس کی قبا بڑی ہے
سورج پہن کے نکلے دھندلے چراغ یارو
ان میں خیال نو کے کیسے اگیں گے پودے
بنجر ہیں مذہبوں سے جن کے دماغ یارو
روز ازل سے انساں ہے کھوج میں خدا کی
کس کو ملا ہے لیکن اس کا سراغ یارو
آنکھوں میں اب نہ آنسو دل میں بھی غم نہیں ہے
کب کے چھلک چکے ہیں سارے ایاغ یارو
غزل
اشکوں سے کب مٹے ہیں دامن کے داغ یارو
اجے سحاب