EN हिंदी
اک بند ہو گیا ہے تو کھولیں گے باب اور | شیح شیری
ek band ho gaya hai to kholenge bab aur

غزل

اک بند ہو گیا ہے تو کھولیں گے باب اور

اجے سحاب

;

اک بند ہو گیا ہے تو کھولیں گے باب اور
ابھریں گے اپنی رات سے سو آفتاب اور

روح بشر غلام ہے کوئی بھی ہو نظام
اب بھی جہاں کو چاہئے کچھ انقلاب اور

جب بھی بڑھی ہے تشنگی ملک‌ و عوام کی
چھلکی ہے قصر شاہ میں تھوڑی شراب اور

اخلاق کی نقاب میں لے کر ولی کا ڈھونگ
نوچیں‌ گے میری لاش کو کتنے عقاب اور

ڈرنے لگا تو ایک ہی حملے میں وقت کے
باقی ہیں تیری زیست میں کتنے عذاب اور