اک بند ہو گیا ہے تو کھولیں گے باب اور
ابھریں گے اپنی رات سے سو آفتاب اور
روح بشر غلام ہے کوئی بھی ہو نظام
اب بھی جہاں کو چاہئے کچھ انقلاب اور
جب بھی بڑھی ہے تشنگی ملک و عوام کی
چھلکی ہے قصر شاہ میں تھوڑی شراب اور
اخلاق کی نقاب میں لے کر ولی کا ڈھونگ
نوچیں گے میری لاش کو کتنے عقاب اور
ڈرنے لگا تو ایک ہی حملے میں وقت کے
باقی ہیں تیری زیست میں کتنے عذاب اور
غزل
اک بند ہو گیا ہے تو کھولیں گے باب اور
اجے سحاب