شام آئی ہے لئے ہاتھ میں یادوں کے چراغ
وہ ترے ساتھ گزارے ہوئے لمحوں کے چراغ
میرے اس گھر میں اندھیرا کبھی ہوتا ہی نہیں
ہیں مرے سینے میں جلتے ہوئے زخموں کے چراغ
لاکھ طوفان ہوں کٹیا مری روشن ہی رہی
ایک برسات سے بجھنے لگے محلوں کے چراغ
زندگی تلخ حقیقت کی ہے اندھی سی گلی
اپنی آنکھوں میں جلاتے رہو سپنوں کے چراغ
ایک مدت سے دھدھکتا رہا میرا یہ ذہن
تب کہیں جا کے فروزاں ہوئے لفظوں کے چراغ
خود کا ہی نور کیا کرتا ہے روشن دل کو
روشنی تجھ کو بھلا کیسے دیں غیروں کے چراغ
ساری دنیا کو خدا ایک ہی سورج دے دے
کاش بجھ جائیں زمانے سے یہ فرقوں کے چراغ
اب تو جمہور کی طاقت کا ہی سورج ہے سحابؔ
اب زمانے میں کہاں جلتے ہیں شاہوں کے چراغ
غزل
شام آئی ہے لئے ہاتھ میں یادوں کے چراغ
اجے سحاب