ہم بھی گزر گئے یہاں کچھ پل گزار کے
راتیں تھیں قرض کی یہاں دن تھے ادھار کے
جیسے پرانا ہار تھا رشتہ ترا مرا
اچھا کیا جو رکھ دیا تو نے اتار کے
دل میں ہزار درد ہوں آنسو چھپا کے رکھ
کوئی تو کاروبار ہو بن اشتہار کے
کیا جانے اب بھی درد کو کیوں ہے مری تلاش
ٹکڑے بھی اب کہاں بچے اس کے شکار کے
شاید زباں پہ قرض تھا ہم نے چکا دیا
خاموش ہو گئے ہیں تجھے ہم پکار کے
ایسے سلگ اٹھا تری یادوں سے دل مرا
جیسے دھدھک اٹھیں کہیں جنگل چنار کے
غزل
ہم بھی گزر گئے یہاں کچھ پل گزار کے
اجے سحاب