EN हिंदी
جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں | شیح شیری
jab bhi milte hain to jine ki dua dete hain

غزل

جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں

اجے سحاب

;

جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں
جانے کس بات کی وہ ہم کو سزا دیتے ہیں

حادثے جان تو لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے
حادثے ہی ہمیں جینا بھی سکھا دیتے ہیں

رات آئی تو تڑپتے ہیں چراغوں کے لیے
صبح ہوتے ہی جسے لوگ بجھا دیتے ہیں

ہوش میں ہو کے بھی ساقی کا بھرم رکھنے کو
لڑکھڑانے کی ہم افواہ اڑا دیتے ہیں

کیوں نہ لوٹے وہ اداسی کا مسافر یارو
زخم سینہ کے اسے روز سدا دیتے ہیں