جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں
جانے کس بات کی وہ ہم کو سزا دیتے ہیں
حادثے جان تو لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے
حادثے ہی ہمیں جینا بھی سکھا دیتے ہیں
رات آئی تو تڑپتے ہیں چراغوں کے لیے
صبح ہوتے ہی جسے لوگ بجھا دیتے ہیں
ہوش میں ہو کے بھی ساقی کا بھرم رکھنے کو
لڑکھڑانے کی ہم افواہ اڑا دیتے ہیں
کیوں نہ لوٹے وہ اداسی کا مسافر یارو
زخم سینہ کے اسے روز سدا دیتے ہیں
غزل
جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں
اجے سحاب