EN हिंदी
فن جو معیار تک نہیں پہنچا | شیح شیری
fan jo mear tak nahin pahuncha

غزل

فن جو معیار تک نہیں پہنچا

اجے سحاب

;

فن جو معیار تک نہیں پہنچا
اپنے شہکار تک نہیں پہنچا

پگڑی پیروں میں کیسے میں رکھتا
ہاتھ دستار تک نہیں پہنچا

کوئی انعام کوئی بھی تمغہ
سچے حق دار تک نہیں پہنچا

ایسا ہر شخص ہے مسیحا اب
جو کبھی دار تک نہیں پہنچا

ہر خدا جنتوں میں ہے محدود
کوئی سنسار تک نہیں پہنچا

چارہ گر سب کے پاس جاتا تھا
صرف بیمار تک نہیں پہنچا

دوست بن کر دغا نہ دے جو وہ
اپنے کردار تک نہیں پہنچا

مجھ کو القاب کیوں ملیں لوگو
میں تو دربار تک نہیں پہنچا

ایسا جھگڑا بتا دو مجھ کو جو
گھر میں دیوار تک نہیں پہنچا

کس نے بیچا نہیں سخن اپنا
کون بازار تک نہیں پہنچا