آندھیوں کی زد میں ہے میرا وجود
اور میں دیوار کی تصویر ہوں
احمد ضیا
بستی بستی پربت پربت وحشت کی ہے دھوپ ضیاؔ
چاروں جانب ویرانی ہے دل کا اک ویرانہ کیا
احمد ضیا
ہے میرا چہرہ سیکڑوں چہروں کا آئینہ
بیزار ہو گیا ہوں تماشائیوں سے میں
احمد ضیا
اک میں ہوں کہ لہروں کی طرح چین نہیں ہے
اک وہ ہے کہ خاموش سمندر کی طرح ہے
احمد ضیا
اس قدر پرخلوص لہجہ ہے
اس سے ملنا ہے عمر بھر جیسے
احمد ضیا
مجھ کو مرے وجود سے کوئی نکال دے
تنگ آ چکا ہوں روز کے ان حادثوں سے میں
احمد ضیا
نہ جانے کتنے مراحل کے بعد پایا تھا
وہ ایک لمحہ جو تو نے گزارنے نہ دیا
احمد ضیا
نگر نگر میں نئی بستیاں بسائی گئیں
ہزار چاہا مگر پھر بھی اپنا گھر نہ بنا
احمد ضیا