EN हिंदी
ملا جو دھوپ کا صحرا بدن شجر نہ بنا | شیح شیری
mila jo dhup ka sahra badan shajar na bana

غزل

ملا جو دھوپ کا صحرا بدن شجر نہ بنا

احمد ضیا

;

ملا جو دھوپ کا صحرا بدن شجر نہ بنا
میں وہ ہوں خود جو کبھی اپنا ہم سفر نہ بنا

نگر نگر میں نئی بستیاں بسائی گئیں
ہزار چاہا مگر پھر بھی اپنا گھر نہ بنا

یہ بات بات ہے دل کی تو پھر جھجک کیسی
یہ نقش نقش وفا ہے تو سوچ کر نہ بنا

چمکتے دن کے اجالوں سے آشنا ہو کر
اندھیری رات میں سائے کو ہم سفر نہ بنا