ملا جو دھوپ کا صحرا بدن شجر نہ بنا
میں وہ ہوں خود جو کبھی اپنا ہم سفر نہ بنا
نگر نگر میں نئی بستیاں بسائی گئیں
ہزار چاہا مگر پھر بھی اپنا گھر نہ بنا
یہ بات بات ہے دل کی تو پھر جھجک کیسی
یہ نقش نقش وفا ہے تو سوچ کر نہ بنا
چمکتے دن کے اجالوں سے آشنا ہو کر
اندھیری رات میں سائے کو ہم سفر نہ بنا
غزل
ملا جو دھوپ کا صحرا بدن شجر نہ بنا
احمد ضیا