ذرا سکون بھی صحرا کے پیار نے نہ دیا
مسافروں کو ہوا نے پکارنے نہ دیا
تجھے بھی دے نہ سکے چین وہ گلاب کے پھول
مجھے بھی اذن تبسم بہار نے نہ دیا
نہ جانے کتنے مراحل کے بعد پایا تھا
وہ ایک لمحہ جو تو نے گزارنے نہ دیا
کہاں گئے وہ جو آباد تھے خرابے میں
پتا کسی کا دل بے قرار نے نہ دیا
میں آپ اپنے لیے دشمنوں سے بڑھ کر تھا
ضیاؔ یہ دل تھا مرا جس نے ہارنے نہ دیا
غزل
ذرا سکون بھی صحرا کے پیار نے نہ دیا
احمد ضیا