وہ خواب سا پیکر ہے گل تر کی طرح ہے
آنکھوں میں گئی شام کے منظر کی طرح ہے
احساس دلاتی ہے یہ پھیلی ہوئی خوشبو
اس گھر کی محبت بھی مرے گھر کی طرح ہے
میں آئینہ جیسا ہوں کوئی توڑ نہ ڈالے
ہر شخص مری راہ میں پتھر کی طرح ہے
اک میں ہوں کہ لہروں کی طرح چین نہیں ہے
اک وہ ہے کہ خاموش سمندر کی طرح ہے
وہ جس نے ضیاؔ حرف بھی دل میں نہ اتارا
وہ آج سر بزم سخن ور کی طرح ہے
غزل
وہ خواب سا پیکر ہے گل تر کی طرح ہے
احمد ضیا