عجب سفر تھا عجب تر مسافرت میری
زمیں شروع ہوئی اور میں تمام ہوا
احمد جاوید
دل سے باہر آج تک ہم نے قدم رکھا نہیں
دیکھنے میں ظاہرا لگتے ہیں سیلانی سے ہم
احمد جاوید
دل بیتاب کے ہم راہ سفر میں رہنا
ہم نے دیکھا ہی نہیں چین سے گھر میں رہنا
احمد جاوید
دنیا مرے پڑوس میں آباد ہے مگر
میری دعا سلام نہیں اس ذلیل سے
احمد جاوید
ایک آنسو سے کمی آ جائے گی
غالباً دریاؤں کے اقبال میں
احمد جاوید
گھر اور بیاباں میں کوئی فرق نہیں ہے
لازم ہے مگر عشق کے آداب میں رہنا
احمد جاوید
ہمیشہ دل ہوس انتقام پر رکھا
خود اپنا نام بھی دشمن کے نام پر رکھا
احمد جاوید
خبر نہیں ہے مرے بادشاہ کو شاید
ہزار مرتبہ آزاد یہ غلام ہوا
احمد جاوید
مشغول ہیں صفائی و توسیع دل میں ہم
تنگی نہ اس مکان میں ہو میہمان کو
احمد جاوید