کوئی جل میں خوش ہے کوئی جال میں
مست ہیں سب اپنے اپنے حال میں
جادۂ شمشیر ہو یا فرش گل
فرق کب آیا ہماری چال میں
ایک آنسو سے کمی آ جائے گی
غالباً دریاؤں کے اقبال میں
شعلۂ صد رنگ کی سی کیفیت
تجھ میں ہے یا تیرے خد و خال میں
ایک لمحہ میرا یار غار ہے
اس مصیبت گاہ ماہ و سال میں
یہ جو میرے جی کو چین آتا نہیں
ہند میں ایران میں بنگال میں
روز کا رونا لگا ہے اپنے ساتھ
ہم نے آنکھیں باندھ لیں رومال میں
دیدہ و دل نے کیا ہے کام بند
ٹھپ ہے کاروبار اس ہڑتال میں
اس نگاہ ناز کی ایک ایک بات
ہے ہمارے پیر کے اقوال میں
دل پہ سایہ ہے کسی سلطان کا
ورنہ کیا رکھا ہے اس کنگال میں
غزل
کوئی جل میں خوش ہے کوئی جال میں
احمد جاوید