EN हिंदी
ہماری ہم نفسی کو بھی کیا دوام ہوا | شیح شیری
hamari ham-nafasi ko bhi kya dawam hua

غزل

ہماری ہم نفسی کو بھی کیا دوام ہوا

احمد جاوید

;

ہماری ہم نفسی کو بھی کیا دوام ہوا
وہ ابر سرخ تو میں نخل انتقام ہوا

یہیں سے میرے عدو کا خمیر اٹھا تھا
زمین دیکھ کے میں تیغ بے نیام ہوا

خبر نہیں ہے مرے بادشاہ کو شاید
ہزار مرتبہ آزاد یہ غلام ہوا

عجب سفر تھا عجب تر مسافرت میری
زمیں شروع ہوئی اور میں تمام ہوا

وہ کاہلی ہے کہ دل کی طرف سے غافل ہیں
خود اپنے گھر کا بھی ہم سے نہ انتظام ہوا

ہوئی ہے ختم در و بام کی کم اسبابی
میسر آج وہ سامان انہدام ہوا